
آن لائن میوچول میڈیکل مائیگریشن پورٹل کی پیش رفت کا جائزہ لیا
محکمہ کے جاری قانونی مقدمات کی صورتحال کا بھی لیا جائزہ
سری نگر/22جون2022ئ
ایڈمنسٹریٹیو ریفارمز ، اِنسپکشنز اینڈ ٹریننگز ڈیپارٹمنٹ نے آن لائن ٹیکنالوجی کو اَپنا کر جموںوکشمیر یوٹی کے اَندر واقع مختلف میڈیکل کالجوں میں میوچول مائیگریشن کے لئے درخواست دینے والے طلباءکو راحت پہنچانے کے لئے ایک خصوصی پہل کی ہے۔ اِس سلسلے میں سیکرٹری اے آر آئی ٹریننگز امیت شرما نے اِس اقدام کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے ایک میٹنگ کی صدارت کی جس میں تمام میڈیکل کالجوں کے پرنسپل بشمول ڈائریکٹر ایس کے آئی ایم ایس ، ایڈیشنل سیکرٹری اے آر آئی ٹریننگز اور دیگر اَفسران نے شرکت کی۔دورانِ میٹنگ این آئی سی جموں وکشمیر ٹیم کی طرف سے پورٹل کی ترقی کے حوالے سے ایک پرزنٹیشن اور ڈیموپیش کیا گیا ۔این آئی سی ٹیم نے بتایا کہ میوچول میڈیکل مائیگریشن کے لئے آ ن لائن درخواستیں داخل کرنے کا پورٹل لانچ کے آخری مرحلے میں ہے۔میٹنگ میں اہم اَمور کو حتمی شکل دی گئی جس میں ایم بی بی ایس کے طلباءکی میوچول مائیگریشن کو مکمل طور پر آن لائن اور صارف موبائل دوست بنانے کے لئے چند اہم فیصلے لئے گئے۔ سیکرٹری اے آر آئی ٹریننگز امیت شرما نے کہا کہ فسٹ پروفیسر کو کلیئر کرنے والے طلباءمتعلقہ میڈیکل کالجوں او ریونیورسٹیوں سے بغیر کسی ہیومین اِنٹرفیس کے صرف آن لائن این او سی( سند عدم اعتراض) حاصل کریں گے اوریہ ایک مقررہ وقت میں ہوگا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ این او سی حاصل کرنے کے بعد طالب علم مائیگریشن کے لئے پورٹل پر مزید درخواست دے گا جس کی حتمی طور پر مذکورہ مقصد کے لئے وضع کردہ معیار کے مطابق اِنتظامی محکمہ کی کمیٹی سے جانچ پڑتال کی جائے گی۔ اِس سے قبل کہ حتمی فیصلہ درخواست دہندہ میڈیکوز کو آن لائن پہنچایا جاسکے۔دریں اثنا¿،سیکرٹری اے آر آئی اینڈ ٹریننگز نے ایک اور میٹنگ میں محکمہ میں جاری بڑے قانونی مقدمات کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا۔میٹنگ میں ایڈیشنل سیکرٹری ، گورنمنٹ پریس کے جنرل منیجران ، محکمہ قانون کے ڈپٹی لیگل ریممبرنس ، اے ایل او ، اَنڈر سیکرٹری اور اے آر آئی اینڈ ٹریننگز ڈیپارٹمنٹ کے دیگر اَفسران نے شرکت کی۔دورانِ میٹنگ چند اہم زیرِ اِلتوا¿ مقدمات لڑنے کا فیصلہ لیا گیااور جاری قانونی چارہ جوئی سے متعلق متعدد مسائل کو حل کرنے کے لئے سرگرم رہیں۔سیکرٹری نے ہدایت دی کہ قانونی معاملات کو نمٹانے میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور اِس میں تاخیرکرنے والے اَفسران کی ذاتی ذمہ داری ہوگی۔